مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ان خیالات کا اظہار بدھ کی رات سی ان ان پر نشر ہونے والے کرسٹیئن امان پور کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔
جب اینکر کرسٹیئن امان پور نے سی ان ان کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کچھ ایرانی خواتین کو حراست میں لے کر تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے تو ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا میں بہت سے ایسے بے بنیاد دعوے کیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے سی ان ان کی کچھ رپورٹس دیکھی ہیں جو تعصب اور جھوٹی پر مبنی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پرامن مظاہروں میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا، تاہم ان مظاہروں میں جو پرتشدد ہو گئے تھے کچھ ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جو ملک کے باہر سے آئے تھے اور آتشیں اسلحہ استعمال کر رہے تھے اور پولیس کو قتل کر رہے تھے۔
خیال رہے کہ یہ دعوے 21 نومبر 2022 کو سامنے آئے جب سی ان ان نے ایران کی سکیورٹی فورسز کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا "احتجاج کو کچلنے کے لیے عصمت دری کا استعمال"﴿Using Rape To Quell Protests﴾۔
مذکورہ سنسنی خیز کہانی کی مرکزی کردار 20 سالہ ارمیتا عباسی نامی ایک لڑکی تھی۔ اسے اکتوبر کے وسط میں ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے غیر ملکی حمایت یافتہ فسادات کے دوران سیکیورٹی فورسز کے خلاف تشدد بھڑکانے میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
بے نام بھوت نما "ذرائع" اور سوشل میڈیا "لیکس" پر مبنی سی این این کی رپورٹ نفرت انگیز پروپیگنڈے کو اگلے درجے پر لے گئی۔ جس ہسپتال میں ارمیتا عباسی کا علاج کیا گیا تھا، وہاں کے غیر مصدقہ "لیکس" کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ "اس کا سر مونڈا گیا تھا" اور طبی عملہ "وحشیانہ عصمت دری کے شواہد" دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا تھا۔
مغرب کے بہت سے ذرائع ابلاغ نے اس بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لیے سی ان ان کی رپورٹ کا حوالہ دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کے حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا اور عصمت دری کو خواتین پر ظلم کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
در ایں اثنا ایرانی میڈیا کی جانب سے سی ان ان کی رپورٹ میں کیے گیے دعوؤں کو باوثوق اور قابل یقین طور پر مسترد کیا گیا اور کیس کے بارے میں ناقابل تردید حقائق پیش کیے گئے تاہم اس کے باوجود بھی مغرب میں پروپیگنڈے کی چکیاں بھڑکتی رہیں۔
آپ کا تبصرہ